حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجمع محققین هند اور دبیرخانه بین المللی علامه میرحامد حسین لکهنوی اعلی الله مقامه کے تعاون سے محققین اور اسلامی اسکالرز کو مدرسۂ کلامی و فقہی لکھنؤ(ہند) سے آشنا اور اس موضوع کی تحقیق و تبیین ساتھ ہی اس مکتب کی عظیم شخصیات سے آشنائی کے لیے چار ہفتوں پر مشتمل ایک علمی و تحقیقی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جسکا پہلا جلسہ علماء و افاضل قم کی موجودگی میں انکے بہترین استقبال کے ساتھ شاندار مرحلے سے ہوکر گزرا۔
اطلاع کے مطابق اس تحقیقی ورکشاپ کا پہلا جلسہ بہت ہی مؤثر رہا اور جلسہ میں موجود محققین نے تحقیقی ولولے کے ساتھ اس موضوع کا استقبال اور اس موضوع پر کام کرنے اور اسے اپنے بنیادی تحقیقاتی پروجیکٹ میں شامل کرنے کی سفارش و گزارش کے ساتھ ہی اپنی اولویت میں رکھنے کا عزم و ارادہ ظاہر کیا۔
موصولہ خبر کے مطابق اس علمی و تحقیقی جلسے کو خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین آقای درهی نے مدرسه کلامی و فقهی لکهنؤ کے بارے میں ابتدائیہ بیان جاری کرتے ہوئے اہم اور کلیدی نکات بیان کیے اور اس مدرسہ کے خصوصیات اور کس طرح سے یہ مدرسہ تشکیل پایا اس پر روشنی ڈالی۔
آقای درہی نے کہا، ہندوستان میں شیعہ مخالف تحریکیں، ہند کے شمالی علاقے میں نیشاپوری سادات کی حکومت، شہید ثالث(رح) جیسی علمی شخصیت کی قلمی کاوش، خاندان اجتہاد اور اسکے شاگرد خانوادہ، خاندان عبقات کی علمی و تحقیقی جانفشانیاں، غیرتِ دینی، اهل بیت(ع) سے والہانہ عشق و محبت، یہ وہ چند عوامل رہے ہیں جس سے لکھنؤ کا کلامی اور فقہی مکتب تشکیل پایا اور عالم تشیع پر اثر انداز رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ضمن میں آیت اللہ العظمیٰ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ کے خدمات ناقابل فراموش ہیں کیونکہ اس مکتب کو جو علمی تشخص حاصل ہوا وہ آپ کی ہی ذات والا صفات کا کارنامہ ہے، آپ نے ہی سب سے پہلے باقاعدہ طور پر نماز جمعہ و جماعت و دیگر عبادات اهل بیت کے طریقے پر شروع کیئے اور تحقیقاتی امور کی داغ بیل ڈالی نیز نمایاں شاگرد پرورش کیے اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مبلغین کا اعزام کیا۔
واضح رہے کہ ماحیٔ بدعات،چاووش وحدت، عظیم مجاہد، محقق عالی قدر، مبلّغ شجاع، خدمتگزار دين مبين مجدد شریعت محیئ ملت آیت اللہ العظمیٰ حضرت دلدار علی غفرانمآب علیہ الرحمہ کا نام نامی علماء و فقہاء کے درمیان سورج کی طرح تابندہ ہے، وہ نجف، قم اور مشہد کی جانب ہجرت کرنے والے پہلے ہندوستانی عالم ہیں جو فقہ و اصول کی اعلیٰ تعلیم کے لیے در باب العلم تک پہنچے، جنہوں نے مکتب کلام و فقہ لکھنؤ کی بنیاد ڈالی جنکے شاگردوں میں صاحب عبقات کے والد ماجد کا بھی نام ہے۔ انہوں نے متعدد مدرسے قائم کیے، متعدد حسینیہ اور مساجد تعمیر کیں، اور لوگوں کے لئے بہت سارے ثقافتی اور فلاحی کارنامے انجام دیئے۔ موصوف نے آصف الدولہ اور دیگر اعیان حکومت کو غیر دینی امور سے باز رکھا، اور آپ کے وجود کی برکت سے معجزاتی کام تخلیق ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق جلسے کے دوسرے حصے میں حجت الاسلام والمسلمین آقای رضا مختاری نے قم کے محققین کو خطاب کرتے ہوئے گزشتہ علماء کی علمی میراث کی شناسائی انکی فہرست نگاری اور انکے آثار کی تحقیق و تجدید پر روشنی ڈالتے ہوئے ان عظیم علماء کے عظیم کارناموں کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ لینے اور اس ضمن میں جدید تحقیقی کاوشیں منظر عام پر لانے کی محققین سے گزارش کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں ابھی تک جو کام ہوا ہے وہ بہت کم ہے اور اس سلسلے میں کام بہت زیادہ ہے جسے آپ سبھی محققین مل جل کر انجام دیں، اس ضمن میں اب تک جو کام ہوا ہے اسکا مختصر خاکہ کچھ یوں بنتا ہے: ورثة الانبیاء:تصنیف علامۂ ہندی سید احمد، تذکرة علماء المحققین:تصنیف علامہ سید مہدی عظیم آبادی،آئینۂ حق نما: تذکرۂ حضرت غفرانمآب(رح) تصنیف علامہ سید محمد فیض آبادی و علامہ سید نجف علی کشمیری و علامہ حیدر شاہ کشمیری دو جلد،اوراق الذهب،تذکرہ سید العلما سید حسین: تصنیف علامہ مفتی محمد عباس، الرمح المصقول تصنیف علامہ سید محمد فیض آبادی یہ کتاب حضرت غفران ماب اور آئینۂ حق نما کی حمایت میں اور عبد العظیم لنجانی اصفہانی کی رد میں لکھی گئی ہے۔
معلوم ہوکہ اس سلسلے کی دوسری نشست میں مکتب لکھنؤ کے کلامی منابع و ماخذ کا جائزہ حجت الاسلام والمسلمین سید شجاعت حسین رضوی کے توسط سے انجام پائے گا جبکہ اسی جلسے میں حجت الاسلام والمسلمین محمد باقر رضا کے ذریعہ فقہی اور کلامی آثار کی ایک رپورٹ ساتھ ہی اس موضوع پر موجود سافٹویئر کی نشاندہی کی جائے گی،اسی دوسری نشست کے آخری مرحلے میں استاد اسفندیاری مدرسۂ لکھنؤ کے کلامی میراث کو پہچاننے کی روش پر روشنی ڈالیں گے۔ ان جلسات میں شرکت کے لیے مجمع محققین هند کے دفتر سے مراجعہ کیا جاسکتا ہے۔